نہ تم ملے تھے تو دنیا چراغ پا بھی نہ تھی
یہ مہرباں تو نہیں تھی مگر خفا بھی نہ تھی
عجب غریبی کے عالم میں مر گیا اک شخص
کہ سر پہ تاج تھا دامن میں اک دعا بھی نہ تھی
نہ اتنا بکھری تھی پہلے کتاب ہستی بھی
اور اتنی تیز مرے شہر کی ہوا بھی نہ تھی
خوشی تو یہ ہے کہ پاس ادب رکھا ہم نے
ملال یہ ہے کہ اپنی کوئی خطا بھی نہ تھی
مری حیات کہاں تک تری صفائی دوں
کہ تو خراب نہیں تھی تو پارسا بھی نہ تھی
بھلا کیا کہ ہمیں زہر دے دیا تم نے
علاوہ اس کے ہماری کوئی دوا بھی نہ تھی
بدل رہا ہے مسلسل مزاج دنیا کا
یہ بے وفا تھی مگر ایسی بے حیا بھی نہ تھی

غزل
نہ تم ملے تھے تو دنیا چراغ پا بھی نہ تھی
طارق قمر