نہ تم میرے نہ دل میرا نہ جان ناتواں میری
تصور میں بھی آ سکتیں نہیں مجبوریاں میری
نہ تم آئے نہ چین آیا نہ موت آئی شب وعدہ
دل مضطر تھا میں تھا اور تھیں بے تابیاں میری
عبث نادانیوں پر آپ اپنی ناز کرتے ہیں
ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے نادانیاں میری
یہ منزل یہ حسیں منزل جوانی نام ہے جس کا
یہاں سے اور آگے بڑھنا یہ عمر رواں میری
غزل
نہ تم میرے نہ دل میرا نہ جان ناتواں میری
فیاض ہاشمی