نہ ٹوکو دوستو اس کی بہار نام خدا
یہی اب ایک ہے یاں گلعذار نام خدا
یہ وہ صنم ہے پری رو کہ جس پہ ہوتی تھیں
ہزار جان سے پریاں نثار نام خدا
اسی صنم کی نگاہوں کی برچھیاں یارو
ہوئی ہیں میرے کلیجے کے پار نام خدا
اسی کے نشتر مژگاں میں اب وہ تیزی ہے
کہ جس سے ہوتے ہیں ہم دل فگار نام خدا
اسی صنم کے رخ و زلف کے تصور میں
ہماری گزرے ہے لیل و نہار نام خدا
گلی میں کوچہ و بازار میں ہم اب دن رات
اسی کے واسطے پھرتے ہیں خوار نام خدا
اسی کے سر کی قسم ہے کہ ہم تو مر جاتے
اگر نہ ہوتا یہ گل رو نگار نام خدا
بنے ہیں یاں جو کئی دیر اور صنم خانے
ادھر جو جو ہوتا ہے اس کا گزار نام خدا
اٹھا کے سینہ جھٹک بازو اور بنا کر دھج
چلے ہے جس گھڑی ٹھوکر کو مار نام خدا
قدم قدم پہ برہمن کہیں ہیں بسم اللہ
صنم بھی کہتے ہیں سب بار بار نام خدا
غرض جدھر کو نکلتا ہے یہ تو ہر اک کے
زباں سے نکلے ہے بے اختیار نام خدا
نظیرؔ ایک غزل اور کہہ کہ تیرے سخن
ہیں اب تو سب گہر آب دار نام خدا
غزل
نہ ٹوکو دوستو اس کی بہار نام خدا
نظیر اکبرآبادی