نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لیے
ترا وجود ہے اب صرف داستاں کے لیے
پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا ہوگا
وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے
غرض پرست جہاں میں وفا تلاش نہ کر
یہ شے بنی تھی کسی دوسرے جہاں کے لیے

غزل
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لیے
ساحر لدھیانوی