نہ تو گندھ ہوں کسی پھول کی نہ ہی پھول ہوں کسی باغ کا
کسی آنکھ کو جو نہ بھا سکا وہ اجاڑ ہوں کسی راغ کا
مرے اشک سے مرے درد سے نہیں واسطہ ہے جہان کو
نہ تو اشک ہوں کسی میرؔ کا نہ ہی درد ہوں کسی داغؔ کا
جو جلا کرے تو جلا کرے جو بجھا رہے تو بجھا رہے
کسی اور کو نہ سنائی دے وہی درد ہوں میں چراغ کا
نہ تو یاد ہوں کوئی پر کشش نہ ہی خواب ہوں کوئی خوش نما
دل شاد کو جو کرے دکھی وہ خیال ہوں میں دماغ کا
نہ تو پیاس ہوں میں شراب کی نہ ہی گھونٹ ہوں میں شراب کا
بجھی پیاس جو نہ جگا سکے وہی گھونٹ ہوں میں ایاغ کا
غزل
نہ تو گندھ ہوں کسی پھول کی نہ ہی پھول ہوں کسی باغ کا
شیو کمار بلگرامی