نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
زندگی اک زیاں کا دفتر ہے
پڑھ رہا ہوں میں کاغذات وجود
اور نہیں اور ہاں کا دفتر ہے
کوئی سوچے تو سوز کرب جاں
سارا دفتر گماں کا دفتر ہے
ہم میں سے کوئی تو کرے اصرار
کہ زمیں آسماں کا دفتر ہے
ہجر تعطیل جسم و جاں ہے میاں
وصل جسم اور جاں کا دفتر ہے
وہ جو دفتر ہے آسمانی تر
وہ میاں جی یہاں کا دفتر ہے
ہے جو بود و نبود کا دفتر
آخرش یہ کہاں کا دفتر ہے
جو حقیقت ہے دم بہ دم کی یاد
وہ تو اک داستاں کا دفتر ہے
ہو رہا ہے گزشتگاں کا حساب
اور آئندگاں کا دفتر ہے
غزل
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
جون ایلیا