نہ شکوے ہیں نہ فریادیں نہ آہیں ہیں نہ نالے ہیں
تمہارے چاہنے والے بھی کیسی آن والے ہیں
ادھر دنیا ادھر اہل وفا اب دیکھیے کیا ہو
ادھر کانٹے ہی کانٹے ہیں ادھر چھالے ہیں چھالے ہیں
انہیں دامن میں چن لو یا گرا دو اشک غم میرے
تمہاری ہی امانت تھے تمہارے ہی حوالے ہیں
سحر سے شام ہونے آ رہی ہے اے دل ناداں
نہ وہ جب آنے تھے نہ وہ اب آنے والے ہیں
کسی کی یاد اشکوں کا تسلسل لے کے آئی ہے
چراغاں ہی چراغاں ہے اجالے ہی اجالے ہیں
رقیبوں کا ہمیں کیا غم تمہیں پچھتاؤ گے اک دن
کہ اپنی آستینوں میں یہ تم نے سانپ پالے ہیں
وفا کی سخت راہیں اور مسافر سخت جاں ان کے
یہ راہیں بھی انوکھی ہیں یہ راہی بھی نرالے ہیں
یہ کیسی صبح نو آئی کہ جس پر شام ہنستی ہے
اندھیرے جس سے شرمندہ ہوں یہ کیسے اجالے ہیں
ستم دیکھو زبانیں کھولنے کا وقت ہے راہیؔ
مگر اہل زباں خاموش ہیں ہونٹوں پہ تالے ہیں
غزل
نہ شکوے ہیں نہ فریادیں نہ آہیں ہیں نہ نالے ہیں
راہی شہابی