نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے
مزا جو اپنی محبت کے اعتبار میں ہے
ابھی سے ہوش نہ کھو بیٹھ اے نسیم چمن
ابھی تو ایک شکن زلف تاب دار میں ہے
خود اپنے عشق کی رنگینیوں میں گم ہو جا
نہیں کچھ اور اگر یہ تو اختیار میں ہے
یہ محویت کوئی دیکھے کہ مثل آئینہ
جنون خود نگری اپنے انتظار میں ہے
نہ ہے نصیب ملی اور بقدر ظرف ملی
سپردگی کی جو اک شان اختیار میں ہے
حریف بزم تماشا تری نگاہ نہیں
وگرنہ حسن تو خود تیرے انتظار میں ہے
اثرؔ مجھے ہے وہاں رخصت نوا سنجی
کہ نغمہ اک لب خاموش جب دیار میں ہے
غزل
نہ شرح شوق نہ تسکین جان زار میں ہے
اثر لکھنوی