EN हिंदी
نہ سرنگوں نہ بظاہر اداس اداس چلے | شیح شیری
na sar-nigun na ba-zahir udas udas chale

غزل

نہ سرنگوں نہ بظاہر اداس اداس چلے

محمد نقی رضوی عصر

;

نہ سرنگوں نہ بظاہر اداس اداس چلے
عجیب شان سے مرنے وفا شناس چلے

بنا کے خوگر احساس درد و غم‌ دل کو
ہمارے پاس سے سارے ہجوم یاس چلے

سنا کے اہل جنوں کو بہار کا مژدہ
حواس والے بھی اک سمت بد حواس چلے

حیات نام ہے ایسے سفر کا اے ہمدم
قدم قدم پہ جہاں فکر آس و یاس چلے

زباں پہ آئے تو ڈر ہے بنے نہ افسانہ
وہ بات جس پہ بہت ہر طرف قیاس چلے

ہماری دلق نوازی پہ رشک کرنے کو
سنا ہے دیر و حرم سے نظر شناس چلے

مزہ تو جب ہے بہاروں کی فیض و بخشش کا
کہ عصرؔ جام بھی بے عرض و التماس چلے