نہ سرنگوں نہ بظاہر اداس اداس چلے
عجیب شان سے مرنے وفا شناس چلے
بنا کے خوگر احساس درد و غم دل کو
ہمارے پاس سے سارے ہجوم یاس چلے
سنا کے اہل جنوں کو بہار کا مژدہ
حواس والے بھی اک سمت بد حواس چلے
حیات نام ہے ایسے سفر کا اے ہمدم
قدم قدم پہ جہاں فکر آس و یاس چلے
زباں پہ آئے تو ڈر ہے بنے نہ افسانہ
وہ بات جس پہ بہت ہر طرف قیاس چلے
ہماری دلق نوازی پہ رشک کرنے کو
سنا ہے دیر و حرم سے نظر شناس چلے
مزہ تو جب ہے بہاروں کی فیض و بخشش کا
کہ عصرؔ جام بھی بے عرض و التماس چلے

غزل
نہ سرنگوں نہ بظاہر اداس اداس چلے
محمد نقی رضوی عصر