نہ سمجھے دل فریب آرزو کو
نہ ہم چھوڑیں تمہاری جستجو کو
تری تلوار سے اے شاہ خوباں
محبت ہو گئی ہے ہر گلو کو
وہ منکر ہو نہیں سکتا فسوں کا
سنا ہو جس نے تیری گفتگو کو
تغافل اس کو کہتے ہیں کہ اس نے
مجھے دیکھا نہ محفل میں عدو کو
نہیں پانی تو مے خانے میں اے شیخ
جو کچھ موجود ہے لاؤں وضو کو
سمجھتا ہی نہیں ہے کچھ وہ بد خو
نہ خود مجھ کو نہ میری آرزو کو
نہ بھولا گھر کے اعدا میں بھی حسرتؔ
ترے فرمودۂ لاتقنطو کو
غزل
نہ سمجھے دل فریب آرزو کو
حسرتؔ موہانی