EN हिंदी
نہ سیل رنگ نہ سیارہ ماہتاب مرا | شیح شیری
na sail-e-rang na sayyara mahtab mera

غزل

نہ سیل رنگ نہ سیارہ ماہتاب مرا

عشرت ظفر

;

نہ سیل رنگ نہ سیارہ ماہتاب مرا
ہے میرے سینے میں انگارہ ماہتاب مرا

چھٹی افق کی سیہ گرد تو دکھائی دیا
پیام وصل کا ہرکارہ ماہتاب مرا

خلا میں مضطرب و بے قیام میری طرح
یہ میرے دشت کا بنجارہ ماہتاب مرا

خنک ہواؤں کا مسکن بساط خاک مری
لہو کی آنچ کا گہوارہ ماہتاب مرا

چہار سمت مرے آب زار اور اس میں
غروب ہوتا ہوا تارا ماہتاب مرا

خود اپنے نور سے کرتا ہے اکتساب جمال
وہ ایک شعلۂ آوارہ ماہتاب مرا

تمام رات مخاطب رہا مرے دل سے
وہی سکوت کا فوارہ ماہتاب مرا

زمیں پہ دھوم مرے زخم نا شگفتہ کی
فلک پہ حاصل نظارہ ماہتاب مرا

میں جستجو میں اسی کوزہ گر کی ہوں عشرتؔ
ہے جس کے چاک کا فن پارہ ماہتاب مرا