نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
کہ ہمارا بھی اب وہ حال نہیں
یاد انہیں وعدۂ وصال نہیں
کب کیا تھا یہی خیال نہیں
ایسے بگڑے وہ سن کے شوق کی بات
آج تک ہم سے بول چال نہیں
مجھ کو اب غم یہ ہے کہ بعد مرے
خاطر یار بے ملال نہیں
عفو حق کا ہے میکشوں پہ نزول
ریزش ابر برشگال نہیں
ہم پہ کیوں عرض حال دل پہ عتاب
ایلچی کو کہیں زوال نہیں
سن کے مجھ سے وہ خواہش پابوس
ہنس کے کہنے لگے مجال نہیں
دل کو ہے یاد شوق کا وہ ہنر
جس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں
آپ نادم نہ ہوں کہ حسرتؔ سے
شکوۂ غم کا احتمال نہیں
غزل
نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
حسرتؔ موہانی