EN हिंदी
نہ سہی گر انہیں خیال نہیں | شیح شیری
na sahi gar unhen KHayal nahin

غزل

نہ سہی گر انہیں خیال نہیں

حسرتؔ موہانی

;

نہ سہی گر انہیں خیال نہیں
کہ ہمارا بھی اب وہ حال نہیں

یاد انہیں وعدۂ وصال نہیں
کب کیا تھا یہی خیال نہیں

ایسے بگڑے وہ سن کے شوق کی بات
آج تک ہم سے بول چال نہیں

مجھ کو اب غم یہ ہے کہ بعد مرے
خاطر یار بے ملال نہیں

عفو حق کا ہے میکشوں پہ نزول
ریزش ابر برشگال نہیں

ہم پہ کیوں عرض حال دل پہ عتاب
ایلچی کو کہیں زوال نہیں

سن کے مجھ سے وہ خواہش پابوس
ہنس کے کہنے لگے مجال نہیں

دل کو ہے یاد شوق کا وہ ہنر
جس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں

آپ نادم نہ ہوں کہ حسرتؔ سے
شکوۂ غم کا احتمال نہیں