نہ ساقی ہے نہ مینا ہے نہ بر میں یار جانی ہے
حقیقت میں نہیں جیتے بہ صورت زندگانی ہے
نوازش پر مزاج آیا جہاں دیں گالیاں لاکھوں
کرم ہے آپ کا طرفہ عجائب مہربانی ہے
سنو ٹک گوش دل سے قصۂ جاں سوز کو میرے
کہ جگ بیتی نہیں ہے آپ بیتی یہ کہانی ہے
عبث ہے سوچ تجھ کو نامہ بر دے شوق سے مجھ کو
کوئی جھڑکی کوئی گالی اگر اس کی زبانی ہے
تو اپنے ہاتھ کا چھلا جو ہر اک سے چھپاتا ہے
بتا افسوسؔ کس پردہ نشیں کی یہ نشانی ہے
غزل
نہ ساقی ہے نہ مینا ہے نہ بر میں یار جانی ہے
میر شیر علی افسوس