EN हिंदी
نہ پورے ہوئے با خدا بیچتے ہیں | شیح شیری
na pure hue ba-KHuda bechte hain

غزل

نہ پورے ہوئے با خدا بیچتے ہیں

مریم ناز

;

نہ پورے ہوئے با خدا بیچتے ہیں
یوں خواب و خیالوں کو جا بیچتے ہیں

نہیں کوئی مخلص زمانے میں ورنہ
عطا بیچتے تھے ردا بیچتے ہیں

طبیبوں کی ساری ہے اپنی کہانی
وفا بیچتے ہیں شفا بیچتے ہیں

چلو تم بھی ہم سے یہ وعدہ کرو اب
قسم کھا کے ساری انا بیچتے ہیں

یہ اہل زمانہ کہاں جانتے ہیں
دلوں میں سلگتی صدا بیچتے ہیں

ہوئے ہیں وہ ہم سے پرائے کہ ایسے
لگا کے گرا پھر قبا بیچتے ہیں

ستم پہ ستم وہ کئے جا رہے ہیں
لگا کے وہ زخم اب دوا بیچتے ہیں

نہیں ہوتی ان سے کوئی بات بھی تو
یہ آنکھوں کے اندھے دعا بیچتے ہیں

بھرے مال و دولت سے کمرے ہیں خالی
ہوس کے پجاری کلا بیچتے ہیں

مکمل ہو تیرا فنون سفر یہ
ہاں ساغر سے کہہ دو دعا بیچتے ہیں

جو دیکھا اندھیرا تو راہوں میں مریمؔ
اماوس کی شب میں ضیا بیچتے ہیں