EN हिंदी
نہ پوچھو زیست فسانہ تمام ہونے تک | شیح شیری
na puchho zist-fasana tamam hone tak

غزل

نہ پوچھو زیست فسانہ تمام ہونے تک

یعقوب عامر

;

نہ پوچھو زیست فسانہ تمام ہونے تک
دعاؤں تک تھی سحر اور شام رونے تک

مجھے بھی خود نہ تھا احساس اپنے ہونے کا
تری نگاہ میں اپنا مقام کھونے تک

ہر ایک شخص ہے جب گوشت نوچنے والا
بچے گا کون یہاں نیک نام ہونے تک

چہار سمت سے رہزن کچھ اس طرح ٹوٹے
کہ جیسے فصل کا تھا اہتمام بونے تک

بتا رہا ہے ابھی تک ترا دھلا دامن
کہ داغ بھی ہیں نمایاں تمام دھونے تک

ہزار رنگ تمنا ہزار پچھتاوے
عجب تھا ذہن میں اک اژدہام سونے تک

سنا ہے ہم نے بھی آزاد تھا کبھی عامرؔ
کسی کی چاہ کا لیکن غلام ہونے تک