نہ پوچھو کیسے شب انتظار گزری ہے
بھلا ہو دل کا بہت بیقرار گزری ہے
ہزار مصلحتیں جس میں کار فرما ہوں
وہ اک نگاہ کرم ہم پہ بار گزری ہے
ہے اصطلاح محبت میں جس کا نام جنوں
وہ ایک رسم بڑی پائیدار گزری ہے
ضرور اس نے ترے پیرہن کو چوما تھا
جو اس طرف سے صبا مشک بار گزری ہے
وہ باغباں بھی کوئی باغباں ہے جس کی حیات
رہین منت فصل بہار گزری ہے
لٹا ہے کون غریب الدیار رستہ میں
یہ کس کے غم میں صبا سوگوار گزری ہے
نثار اس پہ ہوں میں جس کی زندگی ساقیؔ
بشر کے اوج کی آئینہ دار گزری ہے
غزل
نہ پوچھو کیسے شب انتظار گزری ہے
اولاد علی رضوی