EN हिंदी
نہ پوچھ کب سے یہ دم گھٹ رہا ہے سینے میں | شیح شیری
na puchh kab se ye dam ghuT raha hai sine mein

غزل

نہ پوچھ کب سے یہ دم گھٹ رہا ہے سینے میں

شمیم جے پوری

;

نہ پوچھ کب سے یہ دم گھٹ رہا ہے سینے میں
کہ موت کا سا مزہ آ رہا ہے جینے میں

نہ جانے کیوں یہ تلاطم ڈبو نہیں دیتا
کہ ناخدا بھی نہیں اب مرے سفینے میں

قدم قدم پہ بچایا ہے ٹھوکروں سے مگر
خراش آ ہی گئی دل کے آبگینے میں

مہک رہی ہے صبا صبح سے نہ جانے کیوں
نہا کے آئی ہے شاید ترے پسینے میں

شمیمؔ ساحل و کشتی سے کچھ امید نہ رکھ
کوئی وقار نہیں اس طرح سے جینے میں