نہ پانیوں کا اضطرار شہر میں
نہ موسموں کا اعتبار شہر میں
مثال موجۂ ہوا ادھر ادھر
رواں دواں ہے انتشار شہر میں
ہے شب گئے گھروں میں روشنی سی کیا
ہے سب کو کس کا انتظار شہر میں
ہر اک نگاہ بے مقام بے جہت
ہر ایک جسم بے دیار شہر میں
ہر ایک رنگ آئنہ پہ گرد سا
ہر ایک نقش دل فگار شہر میں
خدا کے نام جھوٹ سچ کے سلسلے
خدا بہت ہے نامدار شہر میں

غزل
نہ پانیوں کا اضطرار شہر میں
فاروق مضطر