EN हिंदी
نہ نظر کی دیدہ وری رہی نہ جگر کی بے جگری رہی | شیح شیری
na nazar ki dida-wari rahi na jigar ki be-jigari rahi

غزل

نہ نظر کی دیدہ وری رہی نہ جگر کی بے جگری رہی

خلیل الرحمٰن راز

;

نہ نظر کی دیدہ وری رہی نہ جگر کی بے جگری رہی
مگر اہل دعویٔ شوق سے تری برہم ناز بھری رہی

کبھی جاگ اٹھا کبھی سو گیا کبھی کھل اٹھا کبھی کھو گیا
دل مست جام جمال کو نہ خبر نہ بے خبری رہی

یہ عجب ہوس کا دیار ہے یہاں عام انا کا خمار ہے
مجھے اپنے صحرا سے پیار ہے مجھے راس دربدری رہی

نہ دل و دماغ کو ہے سکوں نہ زماں مکاں کو قرار ہے
میں سفر میں ہوں کہ حضر میں ہوں مری زندگی سفری رہی

کہیں چاند جگنو پرندہ رت کہیں رنگ دھوپ دھنک نرت
مرے دور میں دل مضطرب یہ غزل کی شیشہ گری رہی

یہاں مکر بھی ہے جدل بھی ہے یہاں بل کے ساتھ میں چھل بھی ہے
فن تیشہ گر کے کمال سے زن حیلہ گر ہی کھری رہی

یہ تبسم سر انجمن وہ عداوتوں کے دلوں میں پھن
نئے دور میں نئی نسل کی یہی شان دیدہ وری رہی

جو خدا شناس نہیں ہوا کبھی خود شناس نہ ہو سکا
وہ جو منکرین خدا ہوئے انہیں خود سے بے خبری رہی

مرے فن کے ذوق لطیف کو سند اہل ذوق کی چاہئے
مگر آج تک سر انجمن یہ طلب دھری کی دھری رہی

جو تھے طالبان علاج غم انہیں گہری نیند سلا دیا
نہ مرض رہا نہ مریض ہی یہ غضب کی چارہ گری رہی