نہ محفل ایسی ہوتی ہے نہ خلوت ایسی ہوتی ہے
مرے معبود کیا جینے کی صورت ایسی ہوتی ہے
بس اک کیفیت خود رفتگی تنہائیاں اپنی
ہمیں ملتی ہے فرصت بھی تو فرصت ایسی ہوتی ہے
یہ دنیا سر بسر رنگینیوں میں ڈوب جاتی ہے
تری قامت کی ہر شے میں شباہت ایسی ہوتی ہے
در و دیوار پر بس ایک سناٹے کی رونق ہے
مرے مہماں سے پوچھو گھر کی جنت ایسی ہوتی ہے
کہاں اپنی سیہ کاری کہاں یہ تیری معصومی
تجھے دیکھا نہیں جاتا ندامت ایسی ہوتی ہے
کوئی دیکھے تجھے تو از سر نو زندگی مانگے
روایت جھوٹ ہے قاتل کی صورت ایسی ہوتی ہے
یہ مجبوری، محبت بھیک جیسی بھی گوارا ہے
کبھی دن رات کو تیری ضرورت ایسی ہوتی ہے
بچھڑ کر تجھ سے ملنے کی مسرت بھول جاتا ہوں
کہ مل کر پھر بچھڑنے کی اذیت ایسی ہوتی ہے
غزل
نہ محفل ایسی ہوتی ہے نہ خلوت ایسی ہوتی ہے
شاذ تمکنت