نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
کچھ اس گورے سے مکھڑے کا جھمکڑا ہی نرالا ہے
وہ مکھڑا گل سا اور اس پر جو نارنجی دوشالہ ہے
رخ خورشید نے گویا شفق سے سر نکالا ہے
کن انکھیوں کی نگہ گپتی اشارت قہر چتون کے
جو ووں دیکھا تو برچھی ہے جو یوں دیکھا تو بھالا ہے
کہیں خورشید بھی چھپتا ہے جی باریک پردے میں
اٹھا دو منہ سے پردے کو بڑا پردہ نکالا ہے
کھلے بالوں سے منہ کی روشنی پھوٹی نکلتی ہے
تمہارا حسن تو صاحب اندھیرے کا اجالا ہے
نہ جھمکیں کس طرح کانوں میں اس کے حسن کے جھمکے
ادھر بندا ادھر جھمکا ادھر بجلی کا بالا ہے
نظیرؔ اس سنگ دل قاتل پہ دعویٰ خون کا مت کر
میاں جا تجھ سے یاں کتنوں کو اس نے مار ڈالا ہے
غزل
نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
نظیر اکبرآبادی