نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی
ہمیں تو پہلی محبت کتاب سے ہوئی تھی
فریب کل ہے زمیں اور نمونہ اضداد
کہ ابتدا ہی گناہ و ثواب سے ہوئی تھی
بس ایک شب کی کہانی نہیں کہ بھول سکیں
ہر ایک شب ہی مماثل عتاب سے ہوئی تھی
وجود چشم تھا ٹھہرے سمندروں کی مثال
نمود حالت دل اک حباب سے ہوئی تھی
جزائے عشق حقیقی رہی طلب اپنی
خطائے عشق مجازی جناب سے ہوئی تھی
اسی سے تیرہ شبی میں ہے منظروں کا وجود
وہ روشنی جو مشیت کے باب سے ہوئی تھی
وہی تو جہد مسلسل کی ابتدا تھی علیؔ
جب آشنائی قدم کی رکاب سے ہوئی تھی
غزل
نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی
علی مزمل