نہ لذتیں ہیں وہ ہنسنے میں اور نہ رونے میں
جو کچھ مزا ہے ترے ساتھ مل کے سونے میں
پلنگ پہ سیج بچھاتا ہوں مدتوں سے جان
کبھی تو آن کے سو جا مرے بچھونے میں
مسک گئی ہے وہ انگیا جو تنگ بندھنے سے
تو کیا بہار ہے کافر کے چاک ہونے میں
کہا میں اس سے کہ اک بات مجھ کو کہنی ہے
کہوں میں جب کہ چلو میرے ساتھ کونے میں
یہ بات سنتے ہی جی میں سمجھ گئی کافر
کہ تیرا دل ہے کچھ اب اور بات ہونے میں
یہ سن کے بولی کہ ہے ہے یہ کیا کہا تو نے
پڑا ہے کیوں مجھے دنیا سے اب تو کھونے میں
تو بوڑھا مردوا اور بارہواں برس مجھ کو
میں کس طرح سے چلوں تیرے ساتھ کونے میں
نظیرؔ ایک وہ عیار سرتی ہے کافر
کبھی نہ آوے گی وہ تیرے جادو ٹونے میں
غزل
نہ لذتیں ہیں وہ ہنسنے میں اور نہ رونے میں
نظیر اکبرآبادی