EN हिंदी
نہ کوئے یار میں ٹھہرا نہ انجمن میں رہا | شیح شیری
na ku-e-yar mein Thahra na anjuman mein raha

غزل

نہ کوئے یار میں ٹھہرا نہ انجمن میں رہا

ابراہیم اشکؔ

;

نہ کوئے یار میں ٹھہرا نہ انجمن میں رہا
ادائے ناز سے یہ دل سرائے فن میں رہا

ہزاروں طوفاں اٹھائے ہیں وقت آنے پر
لہو بھی خاص ادا سے مرے بدن میں رہا

میں ایک رنگ تھا رنگ خیال آوارہ
کسی دھنک میں کسی رت کے پیرہن میں رہا

انا ہی تھی کہ نہ جھکنے دیا کبھی مجھ کو
پہاڑ سر پہ اٹھا کر بھی بانکپن میں رہا

وہ میں ہی تھا کہ کوئی اور تھا نہیں معلوم
تمام عمر جو میرے ہی جان و تن میں رہا

سفیر جاں کے لیے منزلیں نہیں ہوتیں
کوئی پڑاؤ بھی آیا تو وہ تھکن میں رہا

اٹھی جو سیف ستم بے نیاز موت و حیات
قلم بدست کھڑا وادیٔ سخن میں رہا