نہ کچھ سوال کیا اور نہ کچھ گلہ مجھ سے
عجیب شخص تھا مل کر بچھڑ گیا مجھ سے
تو اپنی ذات میں اک منزل وفا ہے مگر
میں وہ چراغ کہ روشن ہے راستا مجھ سے
کسی نے چھین لی بینائی میری آنکھوں کی
کسی نے آئنہ منسوب کر دیا مجھ سے
مزا تو جب ہے تری جستجو میں جان بہار
مرے وجود کا ہو جائے سامنا مجھ سے
بجھا دیا تو اندھیروں نے آ کے گھیر لیا
جلا دیا تو الجھنے لگی ہوا مجھ سے
وہ سب سے چھپ کے مرے گھر تو آ گیا لیکن
سپردگی کا تقاضا نہ کر سکا مجھ سے
جواب کچھ بھی دیا جائے غم نہیں منظرؔ
سوال یہ ہے کہ پوچھے گا کیا خدا مجھ سے
غزل
نہ کچھ سوال کیا اور نہ کچھ گلہ مجھ سے
منظور امکانی