نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
وہی وہی نظر آئے گا جہاں جہاں دیکھا
بہشت میں بھی اسی حور کو رواں دیکھا
یہاں جو دیکھ چکے تھے وہی وہاں دیکھا
خزان عمر کجا و کجا بہار شباب
فلک کو رشک ہوا کوئی جب جواں دیکھا
گئے جہان سے جو لوگ دو جہاں سے گئے
کسی نے پھر نہ کبھی اپنا کارواں دیکھا
جلایا بزم میں ہر روز شمع کے مانند
ہزاروں باتیں سنائیں جو بے زباں دیکھا
قیامت آئی یہ تڑپا فراق میں اے برقؔ
نہ پھر زمین کو پایا نہ آسماں دیکھا
غزل
نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
مرزارضا برق ؔ