نہ کوئی شخص نہ سایہ کہیں نگر میں تھا
بلا کا خواب تماشا مری نظر میں تھا
ابھرتے ڈوبتے رشتوں کی دھوپ چھاؤں میں
اک اجنبی کی طرح میں بھی اپنے گھر میں تھا
سروں کے پھول کی بارش نہ تھم سکی آخر
امڈتے دار کا ساون مرے نگر میں تھا
تڑپ رہی تھیں دریچوں میں ڈوبتی کرنیں
گزرتے وقت کا سورج کہیں کھنڈر میں تھا
پکار لیں نہ کہیں دھوپ میں گھنی شاخیں
بس ایک خوف یہی دوستو سفر میں تھا

غزل
نہ کوئی شخص نہ سایہ کہیں نگر میں تھا
شمشاد سحر