نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے
ملیں گے اب تو خلاصے یہی محبت کے
میں قید جسم میں رسوا تو قید میں میری
بدن پہ داغ لیے قید بے صعوبت کے
عجیب بات گریباں پہ ہاتھ ان کا ہے
جو توشہ گیر تمنا تھے حرف غیرت کے
بس اب تو حرف ندامت کو ثبت دائم دے
صبا صفت تھے رسالے غم محبت کے
دعا سے تزکیۂ نفس تک سفر ہے بہت
لباس بدلو گے کتنے بھی اب ضرورت کے
سیہ سفید کے مالک کو فرق رنگ سے کیا
پڑے نہ اس پہ بھی صدمے کبھی ہزیمت کے
زمام کار جہاں کس کے ہاتھ ہے یارب
بدل گئے ہیں تقاضے بھی آدمیت کے
زمانہ درپئے آزار ہے تو کیا ناہیدؔ
بکھرتے آئے ہیں موتی سدا مشقت کے
غزل
نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے
کشور ناہید

