نہ کوئی دوست دشمن ہو شریک درد و غم میرا
سلامت میری گردن پر رہے بار الم میرا
لکھا یہ داور محشر نے میری فرد عصیاں پر
یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا
کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگ عالم ہے
وجود گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا
کشاکش ہے امید و یاس کی یہ زندگی کیا ہے
الٰہی ایسی ہستی سے تو اچھا تھا عدم میرا
دل احباب میں گھر ہے شگفتہ رہتی ہے خاطر
یہی جنت ہے میری اور یہی باغ ارم میرا
مجھے احباب کی پرسش کی غیرت مار ڈالے گی
قیامت ہے اگر افشا ہوا راز الم میرا
کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
شہید یاس ہوں نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا
خدا نے علم بخشا ہے ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا
زبان حال سے یہ لکھنؤ کی خاک کہتی ہے
مٹایا گردش افلاک نے جاہ و حشم میرا
کیا ہے فاش پردہ کفر و دیں کا اس قدر میں نے
کہ دشمن ہے برہمن اور عدو شیخ حرم میرا
غزل
نہ کوئی دوست دشمن ہو شریک درد و غم میرا
چکبست برج نرائن