نہ کھیل اب کھیل تو میرے یقیں سے
خدا کے واسطے آ جا کہیں سے
یہ اچھی آگ اشکوں نے بجھائی
دھواں اٹھنے لگا اب ہر کہیں سے
انہیں کو آسماں نے بھی ڈرایا
ڈرے سے تھے جو پہلے ہی زمیں سے
سزائیں جو مسلسل مل رہی ہیں
خطا کچھ ہو گئی ہوگی ہمیں سے
خیالؔ اب سوچ مت اتنا زیادہ
یہ کہہ دے ہاں محبت ہے تمہیں سے

غزل
نہ کھیل اب کھیل تو میرے یقیں سے
پریہ درشی ٹھا کرخیال