EN हिंदी
نہ کھیل اب کھیل تو میرے یقیں سے | شیح شیری
na khel ab khel to mere yaqin se

غزل

نہ کھیل اب کھیل تو میرے یقیں سے

پریہ درشی ٹھا کرخیال

;

نہ کھیل اب کھیل تو میرے یقیں سے
خدا کے واسطے آ جا کہیں سے

یہ اچھی آگ اشکوں نے بجھائی
دھواں اٹھنے لگا اب ہر کہیں سے

انہیں کو آسماں نے بھی ڈرایا
ڈرے سے تھے جو پہلے ہی زمیں سے

سزائیں جو مسلسل مل رہی ہیں
خطا کچھ ہو گئی ہوگی ہمیں سے

خیالؔ اب سوچ مت اتنا زیادہ
یہ کہہ دے ہاں محبت ہے تمہیں سے