نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے
عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں
کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے
میں ایک جام ہوں کس کس کے ہونٹ تک پہنچوں
غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے
تراش لیتا ہوں اس سے بھی آئینے منظورؔ
کسی کے ہاتھ کا پتھر اگر لگے ہے مجھے
غزل
نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے
ملک زادہ منظور احمد