نہ کر تلاش اثر تیر ہے لگا نہ لگا
جو اپنے بس کا نہیں اس کا آسرا نہ لگا
حیات لذت آزار کا ہے دوسرا نام
نمک چھڑک تو چھڑک زخم پر دوا نہ لگا
مرے خیال کی دنیا میں اس جہاں سے دور
یہ بیٹھے بیٹھے ہوا گم کہ پھر پتا نہ لگا
خوشی یہ دل کی ہے اس میں نہیں ہے عقل کو دخل
برا وہ کہتے رہے اور کچھ برا نہ لگا
چمک سے برق کی کم تر ہے وقفۂ دیدار
نظر ہٹی کہ اسے ہاتھ اک بہانہ لگا
مری تلاش تھی تشویش دیدۂ بے نور
وہ ملتے کیا مجھے اپنا ہی جب پتا نہ لگا
غزل
نہ کر تلاش اثر تیر ہے لگا نہ لگا
آرزو لکھنوی