نہ کمی کوئی ترے ناز میں نہ کمی ہے ذوق نیاز میں
تو وفائیں میری ہی پیش کر مرے خون دل کے جواز میں
مری خاک میں تری سانس ہے تری روشنی مرے پاس ہے
مجھے دل دیا صنم آشنا مرا سر جھکا ہے نماز میں
کبھی خط کو تیرے چھپا لیا کبھی اشک آئے تو پی لئے
مری زندگی تو گزر گئی اسی پردہ دارئی راز میں
کسی غزنوی کے نصیب میں کہاں وہ عروج نیاز تھا
کئی غزنوی تھے جڑے ہوئے اسی اک لباس ایاز میں
ہیں ترے سوا بھی بہت حسیں مجھے تو نظر سے گرا نہیں
اسی آسمان کے سائے میں اسی خاکدان مجاز میں
نہ یوں فخر کر نہ یوں سر اٹھا کہ یہ سچ ہے خالدؔ بے نوا
تو یہ سوچ لے تو یہ جان لے کہ نشیب بھی ہیں فراز میں

غزل
نہ کمی کوئی ترے ناز میں نہ کمی ہے ذوق نیاز میں
خالد فتح پوری