نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں
آؤ خاموشیوں کے لب کھولیں
بستیاں ہم خود ہی جلا آئے
کسی برگد کے سائے میں سو لیں
کچھ نئے رنگ سامنے آئیں
آ کئی رنگ ساتھ میں گھولیں
زرد منظر عجیب سناٹے
کھڑکیاں کیوں گھروں کی ہم کھولیں
راستے سہل ہیں مگر تابشؔ
کون ہے ساتھ جس کے ہم ہو لیں
غزل
نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں
ظفر تابش