EN हिंदी
نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں | شیح شیری
na kaho tum bhi kuchh na hum bolen

غزل

نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں

ظفر تابش

;

نہ کہو تم بھی کچھ نہ ہم بولیں
آؤ خاموشیوں کے لب کھولیں

بستیاں ہم خود ہی جلا آئے
کسی برگد کے سائے میں سو لیں

کچھ نئے رنگ سامنے آئیں
آ کئی رنگ ساتھ میں گھولیں

زرد منظر عجیب سناٹے
کھڑکیاں کیوں گھروں کی ہم کھولیں

راستے سہل ہیں مگر تابشؔ
کون ہے ساتھ جس کے ہم ہو لیں