EN हिंदी
نہ کہو اعتبار ہے کس کا | شیح شیری
na kaho etibar hai kis ka

غزل

نہ کہو اعتبار ہے کس کا

شیخ علی بخش بیمار

;

نہ کہو اعتبار ہے کس کا
بے وفائی شعار ہے کس کا

اے اجل شام ہجر آ پہنچی
اب تجھے انتظار ہے کس کا

عشق سے میں خبر نہیں یا رب
داغ دل یادگار ہے کس کا

دل جو ظالم نہیں تری جاگیر
تو یہ اجڑا دیار ہے کس کا

محتسب پوچھ مے پرستوں سے
نام آمرزگار ہے کس کا

بزم میں وہ نہیں اٹھاتے آنکھ
دیکھنا ناگوار ہے کس کا

پہنے پھرتا ہے ماتمی پوشاک
آسماں سوگوار ہے کس کا

چین سے سو رہو گلے لگ کر
شوق بے اختیار ہے کس کا

آپ سا سب کو وہ سمجھتے ہیں
معتبر انکسار ہے کس کا

یار کے بس میں ہے امید وصال
یار پر اختیار ہے کس کا

آپ بیمارؔ ہم ہوئے رسوا
سرنگوں رازدار ہے کس کا