نہ جس کا کوئی سہارا ہو وہ کدھر جائے
نہ آئے موت تو بے موت کیسے مر جائے
میں اس خیال سے ان سے گلا نہیں کرتا
کہیں نہ پھول سے چہرے کا رنگ اتر جائے
تو ہی بتا دے مجھے بے کسیٔ منزل شوق
جو راہ سے بھی نہ واقف ہو وہ کدھر جائے
ہزاروں طور نہیں چشم معرفت کے لئے
جہاں جہاں تری معجز نما نظر جائے
تجلیات سے معمور ہے ہر اک ذرہ
بلا سبب نہ کوئی کوہ طور پر جائے
نہ پی تو اپنے یہ آنسو مذاق میں ساقیؔ
کہیں نہ زہر محبت میں کام کر جائے
غزل
نہ جس کا کوئی سہارا ہو وہ کدھر جائے
اولاد علی رضوی