نہ جب تک درد انساں سے کسی کو آگہی ہوگی
نہ پیدا عشق ہوگا اور نہ دل میں روشنی ہوگی
وہ نکلے ہوں گے جب صحن چمن میں بے نقاب ہو کر
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی
نمازی جا رہے ہیں آج کیوں سوئے صنم خانہ
بہار بے خودی شاید وہاں بھی آ گئی ہوگی
نہ جانے دیکھیے کب تک رہے مشق ستم مجھ پر
کہاں تک بیکسی میری کسی کی دل لگی ہوگی
نہ کر اب تذکرہ اس بزم رنداں کے اجڑنے کا
کسی کم ظرف کے آنے سے محفل اٹھ گئی ہوگی
ہماری خامشی کہہ دے گی افسانہ زمانے کا
تمہاری گفتگو محتاج شرح زندگی ہوگی
کھلے گا راز تیرا ضبطؔ اس دن ان کی محفل میں
کہ جب دل کی کہانی آنسوؤں میں ڈھل گئی ہوگی

غزل
نہ جب تک درد انساں سے کسی کو آگہی ہوگی
شیو چرن داس گوئل ضبط