نہ جانے سحر یہ کیا تو نے چشم یار کیا
کہ میں نے ہوش کے جامے کو تار تار کیا
فسوں عجیب یہ اے موسم بہار کیا
کہ خار زار کو ہم رنگ لالہ زار کیا
مہک رہا ہے ہر اک گل کا جامۂ رنگیں
صبا نے باغ میں کیا ذکر زلف یار کیا
نہ پوچھو پچھلے پہر اپنی یاد کا عالم
تمہارا ذکر ستاروں سے بار بار کیا
نسیم صبح نے آ کر وہ راگنی چھیڑی
ہر ایک پھول نے کانٹے کو جھک کے پیار کیا
مرے جہان محبت میں پڑ گئی ہلچل
سکون دل نے مجھے اور بے قرار کیا
بھر آئے دیدۂ انجم میں اشک مجبوری
جگر کو تھام کے جب ہم نے ذکر یار کیا
تڑپ کے آبلہ پا ایک بار پھر اٹھے
یہ کسی نے تذکرۂ آمد بہار کیا
گزر چکی ہیں جو احسانؔ ان کی محفل میں
انہیں قرار کی گھڑیوں نے بیقرار کیا
غزل
نہ جانے سحر یہ کیا تو نے چشم یار کیا
احسان دانش