نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام
ہم ایک سی تو کہانی سدا نہیں کہتے
جدھر پہنچنا ہے آغاز بھی وہیں سے ہوا
سفر سمجھتے ہیں اس کو سزا نہیں کہتے
نیا شعور نئے استعارے لاتا ہے
ازل سے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے
جو گیت چنتے ہیں خاموشیوں کے صحرا سے
وہ لب کشاؤں کو راز آشنا نہیں کہتے
فضا کا لفظ ہے اس کے لیے الگ موجود
جو گھر ٹھہرتی ہے اس کو ہوا نہیں کہتے
زمانے بھر سے الجھتے ہیں جس کی جانب سے
اکیلے پن میں اسے ہم بھی کیا نہیں کہتے
جو دیکھ لیتے ہیں چیزوں کے آر پار ملالؔ
کسی بھی چیز کو اتنا برا نہیں کہتے
غزل
نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام (ردیف .. ے)
صغیر ملال