EN हिंदी
نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام (ردیف .. ے) | شیح شیری
na jaane kyun sada hota hai ek sa anjam

غزل

نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام (ردیف .. ے)

صغیر ملال

;

نہ جانے کیوں سدا ہوتا ہے ایک سا انجام
ہم ایک سی تو کہانی سدا نہیں کہتے

جدھر پہنچنا ہے آغاز بھی وہیں سے ہوا
سفر سمجھتے ہیں اس کو سزا نہیں کہتے

نیا شعور نئے استعارے لاتا ہے
ازل سے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے

جو گیت چنتے ہیں خاموشیوں کے صحرا سے
وہ لب کشاؤں کو راز آشنا نہیں کہتے

فضا کا لفظ ہے اس کے لیے الگ موجود
جو گھر ٹھہرتی ہے اس کو ہوا نہیں کہتے

زمانے بھر سے الجھتے ہیں جس کی جانب سے
اکیلے پن میں اسے ہم بھی کیا نہیں کہتے

جو دیکھ لیتے ہیں چیزوں کے آر پار ملالؔ
کسی بھی چیز کو اتنا برا نہیں کہتے