EN हिंदी
نہ جانے کیا کمی تھی چاہتوں میں | شیح شیری
na jaane kya kami thi chahaton mein

غزل

نہ جانے کیا کمی تھی چاہتوں میں

تری پراری

;

نہ جانے کیا کمی تھی چاہتوں میں
مزہ کچھ بھی نہ آیہ رنجشوں میں

معین تھا یہی موسم ملن کا
میں اکثر سوچتا ہوں بارشوں میں

وو اک لڑکی میں جس کا ہو نہ پایہ
کمی کچھ تھی نہ اس کی منتوں میں

جسے تم میری قسمت کہہ رہے ہو
وو کب سے پھر رہی ہے گردشوں میں

ہر اک منزل پے جا کے لوٹ آیا
کمی سی کھل رہی تھی منزلوں میں

ملا ان کو نہ دشمن من مطابق
جو پیچھے رہ گئے تھے کوششوں میں