نہ جانے کتنی روایتیں منہدم ہوئیں ہیں
بپا جہاں بھی ہے شور محشر کھڑا ہوا ہوں
یہ کیسا منظر ہے اس کو کس زاویے سے دیکھوں
کہ خود بھی اس دائرے کے اندر کھڑا ہوا ہوں
اب اس نظارے کی تاب لاؤں تو کیسے لاؤں
وہی ہے میدان وہی ہے لشکر کھڑا ہوا ہوں
ہزار طوفان برق و باراں ہیں ساحلوں پر
لیے ہوئے اک شکستہ لنگر کھڑا ہوا ہوں

غزل
نہ جانے کتنی روایتیں منہدم ہوئیں ہیں
اسرار زیدی