نہ جانے کون سا منظر نظر سے گزرا تھا
کہ مدتوں کوئی سودائے سر سے گزرا تھا
پھر اس کے بعد انا کا شکار ہو بیٹھا
میں ایک بار تری رہگزر سے گزرا تھا
بسی ہوئی ہے مہک تیرے پیرہن جیسی
ابھی ابھی کوئی جھونکا ادھر سے گزرا تھا
گزر سکا نہ ترے ضبط کے حصار سے جو
وہ سیل غم بھی مری چشم تر سے گزرا تھا
تھکے تھکے سے وہ بازو وہ فتح مند آنکھیں
سفر طویل کوئی بال و پر سے گزرا تھا
میں نقد جاں لیے بیٹھا رہا مگر رونقؔ
نہ جانے دشمن جانی کدھر سے گزرا تھا
غزل
نہ جانے کون سا منظر نظر سے گزرا تھا
رونق رضا