EN हिंदी
نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں | شیح شیری
na jaane kab ki dabi talKHiyan nikal aain

غزل

نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں

نفس انبالوی

;

نہ جانے کب کی دبی تلخیاں نکل آئیں
ذرا سی بات تھی اور برچھیاں نکل آئیں

ہوا یے ہم پہ اندھیروں کی سازشوں کا اثر
ہمارے ذہن میں بھی کھڑکیاں نکل آئیں

مجھے نواز دی مولیٰ نے پھول سی بیٹی
مرے حساب میں کچھ نیکیاں نکل آئیں

وہ پیڑ جس پہ قضا بن کے بجلیاں ٹوٹیں
سنا ہے اوس پہ ہری پتیاں نکل آئیں

بدلتی رت میں یے کم ظرفیوں کا عالم ہے
بلوں سے پنکھ لیے چیونٹیاں نکل آئیں

خدا کے واسطے اب تو سفر تمام کرو
کہ اب قفس سے بھی تو انگلیاں نکل آئیں

یے معجزہ ہی تو ہے اے نفسؔ کہ طوفاں میں
سمندروں سے سبھی کشتیاں نکل آئیں