EN हिंदी
نہ جانے دل کہاں رہنے لگا ہے | شیح شیری
na jaane dil kahan rahne laga hai

غزل

نہ جانے دل کہاں رہنے لگا ہے

محمد علوی

;

نہ جانے دل کہاں رہنے لگا ہے
کئی دن سے بدن سونا پڑا ہے

کسی جنگل میں کیوں جاتا نہیں ہے
ارے یہ پیڑ کیوں تنہا کھڑا ہے

منڈیروں پہ کبوتر ناچتے ہیں
کواڑوں پر سیہ تالا پڑا ہے

کوئی تو گھر کی شمعوں کو جلائے
دریچوں میں اندھیرا ہو چلا ہے

یہ دیواریں بھی اب گرنے لگی ہیں
یہاں بھی وقت کا سایا پڑا ہے

چلا چل دیکھ ڈس جائے نہ تجھ کو
ترے پیچھے ترا سایا لگا ہے

صنوبر کی گھنی شاخوں پہ علویؔ
پرندوں کا عجب میلا لگا ہے