نہ اتنا کیجے طلب گار کون آپ کا ہے
یہ غیر ہے تو یہاں یار کون آپ کا ہے
نہ ناز کیجئے وارستہ خاطروں کے ساتھ
کدھر ہیں آپ خریدار کون آپ کا ہے
مسیحا اپنا ہے اک اور ہی لب جاں بخش
خدا کے فضل سے بیمار کون آپ کا ہے
ہم اپنی بے گنہی کو گناہ کہتے تھے
بگڑ گئے یہ گناہ گار کون آپ کا ہے
تصور اور ہی بدمست کا ہے لطفؔ کو اب
نہ آپ بہکیے سرشار کون آپ کا ہے

غزل
نہ اتنا کیجے طلب گار کون آپ کا ہے
مرزا علی لطف