EN हिंदी
نہ اتنا کیجے طلب گار کون آپ کا ہے | شیح شیری
na itna kije talabgar kaun aap ka hai

غزل

نہ اتنا کیجے طلب گار کون آپ کا ہے

مرزا علی لطف

;

نہ اتنا کیجے طلب گار کون آپ کا ہے
یہ غیر ہے تو یہاں یار کون آپ کا ہے

نہ ناز کیجئے وارستہ خاطروں کے ساتھ
کدھر ہیں آپ خریدار کون آپ کا ہے

مسیحا اپنا ہے اک اور ہی لب جاں بخش
خدا کے فضل سے بیمار کون آپ کا ہے

ہم اپنی بے گنہی کو گناہ کہتے تھے
بگڑ گئے یہ گناہ گار کون آپ کا ہے

تصور اور ہی بدمست کا ہے لطفؔ کو اب
نہ آپ بہکیے سرشار کون آپ کا ہے