نہ ہوگا حشر محشر میں بپا کیا
نہ ہوگا میرا ان کا فیصلہ کیا
دغا دے گا مجھے وہ پر جفا کیا
نہ آڑے آئے گی میری وفا کیا
چمن میں کس لئے گل ہنس رہے ہیں
شگوفہ تو نے چھوڑا اے صبا کیا
چلو بگڑو نہ مہ کہنے پر اتنا
بشر سے ہو نہیں جاتی خطا کیا
انہیں ترک تعلق ہے جو منظور
مجھے الزام دیتے ہیں وہ کیا کیا
وہ کب کا بہہ گیا سب خون ہو کر
لگائے گا کوئی دل کا پتا کیا
کیا ہے وعدۂ فردا کسی نے
نہ ہوگی اب قیامت بھی بپا کیا
خدا کی بھی نہیں سنتے ہیں یہ بت
بھلا میں کیا ہوں میری التجا کیا
جفاؤں کے لئے کی تھیں وفائیں
نتیجہ دوستی کا ہے دغا کیا
انہیں کی سی یہ دل بھی کہہ رہا ہے
مثال چشم جاناں پھر گیا کیا
عجب انداز سے نکلا مرا دم
ادائے یار تھی میری قضا کیا
منانے سے نہیں منتا جو کوئی
ہمارا دم خفا ہوتا ہے کیا کیا
دئے دکھ بھی تو جی بھر کے نہ ہم کو
فلک تو کیا ہے تیرا حوصلہ کیا
دغا دی ہم کو دل لے کر ہمارا
یہی جرم وفا کی تھی سزا کیا
مجھے کیوں آج ہچکی آ رہی ہے
کوئی یاد آئی اور ان کو جفا کیا
کریں شکوہ نہ صاحب دہر کا بھی
زمانے میں تمہیں ہو بے وفا کیا
شب فرقت دغا دی ضبط نے بھی
دلا سچ ہے کسی کا آسرا کیا
وہ بے خود پا کے زیباؔ کو یہ بولے
دل آیا آپ کا میرا گیا کیا
غزل
نہ ہوگا حشر محشر میں بپا کیا
زیبا