نہ ہو تو جس میں وہ دل بھی ہے کیا دل
نکما دل برا دل بد نما دل
بتوں کو دے دیا نام خدا دل
سخاؔ میری بھی کیا ہمت ہے کیا دل
اٹھے آغوش سے جب درد اٹھا
ہلے پہلو سے جب وہ ہل گیا دل
ابھی کمسن ہیں رسوائی کا ڈر ہے
نہیں لیتے کسی بدنام کا دل
سنگھا کر نکہت زلف معمبر
اڑا کر لے گئی باد صبا دل
پھرے مجھ سے تو گویا پھر گیا بخت
بڑھے میری طرف تو بڑھ گیا دل
وہی کاوش وہی سوزش وہی درد
ترا پیکان ہے گویا مرا دل
ہمیں بھی رنج و راحت کی خبر تھی
ہمارے پاس بھی طفلی سے تھا دل
مرے محبوب کے محبوب ہو تم
فدا ہوں دل پہ میں تم پر فدا دل
سنبھل ہی جائے گا انساں ہے یا رب
پگھل ہی جائے گا پتھر ہے یا دل
سخاؔ جو مجھ پہ گزرے گی سہوں گا
مرے سینے میں ہے اتنا بڑا دل

غزل
نہ ہو تو جس میں وہ دل بھی ہے کیا دل
سید نظیر حسن سخا دہلوی