EN हिंदी
نہ ہو ٹھکانہ کوئی جس کا تیرے گھر کے سوا | شیح شیری
na ho Thikana koi jis ka tere ghar ke siwa

غزل

نہ ہو ٹھکانہ کوئی جس کا تیرے گھر کے سوا

محمود سروش

;

نہ ہو ٹھکانہ کوئی جس کا تیرے گھر کے سوا
وہ اٹھ کے جائے کہاں تیری رہ گزر کے سوا

دل حزیں کی تمنا نگاہ کے مطلوب
خدا رکھے وہ سبھی کچھ ہیں چارہ گر کے سوا

رضائے دوست تب و تاب سینۂ دشمن
دعا کو اور بھی کچھ چاہئے اثر کے سوا

وہ سوز دل کہ جسے لوگ جان کہتے ہیں
نہیں ہے اور کوئی شے تری نظر کے سوا

پیام خندہ گل اور نشاط صبح چمن
صبا کے پاس ہے سب کچھ تری خبر کے سوا

ہے جان بلبل شیدا تو چار تنکوں میں
قفس میں کچھ بھی نہیں ایک مشت پر کے سوا

ملا ہے عظمت آدم کے نام سے جو مجھے
وہ قرض کس سے ادا ہوگا میرے سر کے سوا

انہی کو نالۂ بلبل کہیں کہ خندۂ گل
چمن میں کچھ بھی نہیں شعلۂ شرر کے سوا

سکون دل کے لئے ہم کہاں کہاں نہ گئے
سروشؔ کچھ نہ ملا زحمت سفر کے سوا