EN हिंदी
نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں | شیح شیری
na ho shabab to kaifiyyat-e-sharab kahan

غزل

نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں

مرزا مائل دہلوی

;

نہ ہو شباب تو کیفیت شراب کہاں
نہ ہو شباب تو کیفیت شباب کہاں

چلا ہوں کعبے کو لیکن چلا نہیں جاتا
نہ ہو جو شوق ہی دل میں تو اضطراب کہاں

عدو کی بزم میں دشمن ہزار بیٹھے ہیں
ملا بھی ہائے وہ کافر تو بے حجاب کہاں

کسی طرح شب غم کی سحر نہیں ہوتی
خدا ہی جانے کہ ڈوبا ہے آفتاب کہاں

حرم میں بیٹھے ہو مائلؔ خدا خدا کیجے
یہاں وہ ساقئ مہوش کہاں شراب کہاں