نہ ہو جس پہ بھروسہ اس سے ہم یاری نہیں رکھتے
ہم اپنے آشیاں کے پاس چنگاری نہیں رکھتے
فقط نام محبت پر حکومت کر نہیں سکتے
جو دشمن سے کبھی لڑنے کی تیاری نہیں رکھتے
خریداروں میں رہ کر زندگی وہ بک بھی جاتے ہیں
ترے بازار میں جو لوگ ہشیاری نہیں رکھتے
بناؤ گھر نہ مٹی کے لب ساحل اے نادانو
سمندر تو کناروں سے وفاداری نہیں رکھتے
انا کو سختیٔ حالات اکثر توڑ دیتی ہے
اسی ڈر سے کبھی فطرت میں خودداری نہیں رکھتے
در و دیوار سے ان کے بھلا کیا آئے گی خوشبو
جو گھر کے صحن میں پھولوں کی اک کیاری نہیں رکھتے
فقط لفظوں سے ہم داناؔ ہنر کی داد لیتے ہیں
قلم والے کبھی شوق اداکاری نہیں رکھتے
غزل
نہ ہو جس پہ بھروسہ اس سے ہم یاری نہیں رکھتے
عباس دانا